غازی علم دین شہید
مسلمانوں کی سب سے گراں قدر ہستی اور
تمام مسلمانوں کی متاع حیات محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے. الله تبارک تعالیٰ
کا ارشاد گرامی ہے کہ "مومن وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و
مال، اولاد اور والدین سے زیادہ عزیز سمجھتا ہو. اسی لیے حرمت رسول صلی اللہ علیہ
وسلم اور ناموس رسالت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے کی خوہش تو ہر مسلمان کے دل
میں ہوتی ہے مگر اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانا کسی سعادت مند کے نصیب میں
ہوتا ہے. ایسے ہی ایک سعادت مند لاہور سے تعلق رکھنے والے علم دین ہیں جنہوں نے
1929میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک ہندو راجپال
کو جہنم واصل کرکے شہید کا درجہ حاصل کیا.
جس وقت لاہور میں راجپال نے حضرت محمد رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک گستاخانہ مواد شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کئے اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا تاہم عدالتوں نے کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہ کیا اور راجپال ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں کر کے بلآخر بری ہوگیا. جس کے بعد عاشقان رسول رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور پورے برصغیر میں جلسے، جلوس اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا. اسی سلسلے کا ایک مظاہرہ لاہور میں دلی دروازے کے پاس ہو رہا تھا . علم دین کام سے واپسی پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے مسلمان مقررین راجپال کے خلاف اردو میں تقاریر کر رہے تھے. علم دین پڑھے لکھے نہ ہونے کے باعث کچھ سمجھ نا سکے تاہم ایک مقرر کی جانب سے جب پنجابی میں تقریر کی گئی تو انھے سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ایک ہندو راجپال کی جانب سے حضور پاک محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اور مسلمان مقرر کی جانب سے کی گئی تقریر کے ان الفاظ "راجپال واجب القتل ہے " نے علم دین کے دل و دماغ میں طلاطم برپا کر دیا.
دوسرے دن ایک بزرگ نے خواب میں علم دین کو کہا کہ علم دین سو رہے ہو تمھارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں دشمن اسلام گستاخی کر رہے ہیں اٹھو جلدی کرو . علم دین نے اپنے خواب کا ذکر جب اپنے قریبی دوست شیدے سے کیا توو جواب میں اس نے کہا کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے اور پھر دونوں دوستوں کے درمیان بحث چھڑ گئی کے راجپال کا قتل کون کرے گا بلآخر اس بحث کا خاتمہ دونوں عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قرعہ اندازی کے ذریعے کیا اور قرعہ فال علم دین کے نام نکلا تاہم دوست کے اسرار پر دوبارہ اور تیسری بار قرعہ اندازی کی گئی مگر ہر بار نتیجہ ایک ہی تھا . علم دین کے دوست نے ان سے بغلگیر ہو کر کہا کہ " علم دین تم خوش نصیب ہو جو اس کام کے لئے منتخب کر لیے گئے ہوکاش یہ کام میرے نصیب میں ہوتا علم دین نے دوست کو جواب دیا کہ " دعا کرنا میں اس کام میں کامیاب ہو جاؤں"
2 اپریل 1929 کو انار کلی میں واقع راج پال کے آفس میں داخل ہو کر علم دین نے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم راجپال کو چھری کا وار کر کے جہنم واصل کر کے سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دے دیا. وقوع کے بعد لوگوں نے علم دین کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا . راجپال کے قتل کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ھوگئے . مسلمانوں کی جانب سے علم دین کے حق میں اور ہندوں کی جانب سے ان کی مخالفت میں جلسے اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. علم دین کے گھر کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا . اس مشکل وقت میں علم دین کے قریبی دوست شیدے نے ان کے گھر والوں کا ساتھ نا چھوڑا اور پولیس کی موجودگی کے باوجود علم دین کے گھر والوں کی خبر گیری کرتے رہے.
عدالتی کاروائی کے دوران خواجہ فیروز الد ین ایڈووکیٹ ، فرخ حسین اور دیگر مسلمانوں نے علم دین کا بھرپور ساتھ دیا تاہم سیشن کورٹ نے علم دین کو پھانسی کی سزا سنا دی. اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور علم دین کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم نے عدالت میں دلائل دئیے مگر ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا . غرض یہ کہ ہر متعلقہ ادارے کو اپیل کی گئی مگر نتیجہ بے سود ہی رہا. اور بلآخر برمنگھم پیلس کی جانب سے بھی سزا کو برقرار ہی رکھا گیا.
سزا کے بعد لاہور کے خراب حالات کے پیش نظر علم دین کو میانوالی کی جیل منتقل کر دیا گیا . جیل اہلکاروں اور قیدیوں کے مطابق جیل میں موجود قیدی علم دین کی بہت عزت کرتے تھے اور جب کوئی قیدی بیمار ہو جاتا تھا تو علم دین کےہاتھ سے پانی پی کر صحت یاب ہو جاتا تھا. ایک سپاہی جو ان کی نگرانی پر مامور تھا اس نے دیکھا کے علم دین جیل میں موجود نہیں ہیں اس نے اعلی حکام کو فوری اطلاع دی جب انہوں نے آکر دیکھا تو علم دین جیل میں موجود تھے. اپنے دوست شیدے سے جیل میں ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ راجپال کا قاتل میں ہوں لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت کے ڈر سے عدالت میں صحتِ جرم سے انکار کیا لیکن میں نے موت کے ڈر سے نہیں اپنے بزرگوں کے کہنے پر عدالت میں انکار کیا تھا. اپنے عزیز و اقارب سے آخری ملاقات میں خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ان لوگوں کو بتایا کہ میں نے دعا مانگی تھی کے حضرت موسی علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو اور آج وہ مجھے خواب میں ملے اور پوچھا علم دین کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا حضرت اپ کلیم اللہ ہیں خدا سے کہیں کہ عدالت میں اپنے والد کی وجہ سے جو جھوٹ بولا ہے کہ راجپال کا قتل میں نہیں کیا . اللہ تعالیٰ میرا وہ گناہ معاف کردے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے خوشخبری دی کے میرا وہ گناہ معاف کر دیا گیا ہے. اسی وجہ سے میں آج اتنا خوش ہوں.
میانوالی جیل میں 31 اکتوبر 1929 کو عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تختہ دار پر لٹکا کر فانی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف روانہ کر دیا گیا . تختہ دار پر پوچھی گئی آخری خواہش کے جواب میں شہید علم دین نے کہا کو میں چاہتا ہوں کہ پھانسی کا پھندا خود اپنا گلے میں ڈالوں اورمیرے ہاتھ پاؤں نا باندھے جائیں تاکہ شدید اذیت سے دوچار ہو کر اگلے جہاں میں محبوب خدا کا قرب حاصل کر سکوں تاہم دونوں خواہشات کو رد کر دیا گیا.
پھانسی کے وقت وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ میں حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے راج پال کو قتل کیا تم گواہ رہوں کہ میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں کلمہ شہادت پڑھ کر جا ن آفریں کے سپرد کر رہا ہوں. اور پھر کلمہ شہادت پڑھا اور اپنی جان کو ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا.
اعلیٰ حکام نے حالات خراب ہونے کے ڈر سے شہید کی تدفین غسل کے بناہ ہی قیدیوں کے قبرستان میں کردی . حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خاطر جان قربان کرنے والے کی اس طرح تدفین کی خبر جب مسلمانوں کی ہوئی تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا . جلسوں میں مسلمان مقررین نے مسلمانوں کے قلوب کو ایسا گرما یا کہ وہ شہید علم دین کا لاشہ حاصل کرنے کے خاطر مر مٹنے کو تیار ہوگئے . اسی دوران مسلمانوں کے وفد نے جو کہ علامہ اقبال، سر شفیع، میاں عبدالعزیز ، مولانا غلام محی الدین قصوری پر مشتمل تھا نے ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اور گورنر پنجاب سے ملاقات کی . اور کچھ شرائط کے بعد لاش کی حوالگی کا معاملہ طے پاگیا. حکام کی جانب سے پھانسی کے 13 دن بعد علم دین شہید کی لاش کو میانوالی سے لاہور لاکر مسلمان معززین کے حوالے کر دی. چوبرجی کے میدان میں لاکھوں فزراندن اسلام نے شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کی . جنازے کے راستے میں خواتین اسلام گھروں کی چھتوں پر کلام اللہ کی تلاوت کر رہی تھی اور مرد حضرت جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ کلمہ طیبہ کا ورد ، نعرہ تکبیر اور علم دین شہید زندہ آباد کے نعرے بلند کر رہے تھے. جنازہ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھی. تدفین سے قبل ہی قبر کو پھولوں سے بھر کر پھولوں کا بستر بنا دیا گیا اور تدفین کے بعد قبر کو پھولوں سے لاد دیا گیا تھا.
بلاشبہ یہ مقام ایک سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہی مل سکتا تھا، جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوۓ خود کو حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا. وہ علم دین جس کو کچھ عرصہ قبل تک چند لوگ ہی جانتے تھے اس واقعہ کے بعد آج مسلم امہ اسے علم دین شہید اور سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے. اور رہتی دنیا تک غازی علم دین شہید کا نام عاشق رسول اور حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے والوں کی فہرست میں چمکتا دمکتا رہے گا.
جس وقت لاہور میں راجپال نے حضرت محمد رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک گستاخانہ مواد شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کئے اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا تاہم عدالتوں نے کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہ کیا اور راجپال ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں کر کے بلآخر بری ہوگیا. جس کے بعد عاشقان رسول رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور پورے برصغیر میں جلسے، جلوس اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا. اسی سلسلے کا ایک مظاہرہ لاہور میں دلی دروازے کے پاس ہو رہا تھا . علم دین کام سے واپسی پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے مسلمان مقررین راجپال کے خلاف اردو میں تقاریر کر رہے تھے. علم دین پڑھے لکھے نہ ہونے کے باعث کچھ سمجھ نا سکے تاہم ایک مقرر کی جانب سے جب پنجابی میں تقریر کی گئی تو انھے سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ایک ہندو راجپال کی جانب سے حضور پاک محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اور مسلمان مقرر کی جانب سے کی گئی تقریر کے ان الفاظ "راجپال واجب القتل ہے " نے علم دین کے دل و دماغ میں طلاطم برپا کر دیا.
دوسرے دن ایک بزرگ نے خواب میں علم دین کو کہا کہ علم دین سو رہے ہو تمھارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں دشمن اسلام گستاخی کر رہے ہیں اٹھو جلدی کرو . علم دین نے اپنے خواب کا ذکر جب اپنے قریبی دوست شیدے سے کیا توو جواب میں اس نے کہا کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے اور پھر دونوں دوستوں کے درمیان بحث چھڑ گئی کے راجپال کا قتل کون کرے گا بلآخر اس بحث کا خاتمہ دونوں عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قرعہ اندازی کے ذریعے کیا اور قرعہ فال علم دین کے نام نکلا تاہم دوست کے اسرار پر دوبارہ اور تیسری بار قرعہ اندازی کی گئی مگر ہر بار نتیجہ ایک ہی تھا . علم دین کے دوست نے ان سے بغلگیر ہو کر کہا کہ " علم دین تم خوش نصیب ہو جو اس کام کے لئے منتخب کر لیے گئے ہوکاش یہ کام میرے نصیب میں ہوتا علم دین نے دوست کو جواب دیا کہ " دعا کرنا میں اس کام میں کامیاب ہو جاؤں"
2 اپریل 1929 کو انار کلی میں واقع راج پال کے آفس میں داخل ہو کر علم دین نے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم راجپال کو چھری کا وار کر کے جہنم واصل کر کے سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دے دیا. وقوع کے بعد لوگوں نے علم دین کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا . راجپال کے قتل کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ھوگئے . مسلمانوں کی جانب سے علم دین کے حق میں اور ہندوں کی جانب سے ان کی مخالفت میں جلسے اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. علم دین کے گھر کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا . اس مشکل وقت میں علم دین کے قریبی دوست شیدے نے ان کے گھر والوں کا ساتھ نا چھوڑا اور پولیس کی موجودگی کے باوجود علم دین کے گھر والوں کی خبر گیری کرتے رہے.
عدالتی کاروائی کے دوران خواجہ فیروز الد ین ایڈووکیٹ ، فرخ حسین اور دیگر مسلمانوں نے علم دین کا بھرپور ساتھ دیا تاہم سیشن کورٹ نے علم دین کو پھانسی کی سزا سنا دی. اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور علم دین کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم نے عدالت میں دلائل دئیے مگر ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا . غرض یہ کہ ہر متعلقہ ادارے کو اپیل کی گئی مگر نتیجہ بے سود ہی رہا. اور بلآخر برمنگھم پیلس کی جانب سے بھی سزا کو برقرار ہی رکھا گیا.
سزا کے بعد لاہور کے خراب حالات کے پیش نظر علم دین کو میانوالی کی جیل منتقل کر دیا گیا . جیل اہلکاروں اور قیدیوں کے مطابق جیل میں موجود قیدی علم دین کی بہت عزت کرتے تھے اور جب کوئی قیدی بیمار ہو جاتا تھا تو علم دین کےہاتھ سے پانی پی کر صحت یاب ہو جاتا تھا. ایک سپاہی جو ان کی نگرانی پر مامور تھا اس نے دیکھا کے علم دین جیل میں موجود نہیں ہیں اس نے اعلی حکام کو فوری اطلاع دی جب انہوں نے آکر دیکھا تو علم دین جیل میں موجود تھے. اپنے دوست شیدے سے جیل میں ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ راجپال کا قاتل میں ہوں لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت کے ڈر سے عدالت میں صحتِ جرم سے انکار کیا لیکن میں نے موت کے ڈر سے نہیں اپنے بزرگوں کے کہنے پر عدالت میں انکار کیا تھا. اپنے عزیز و اقارب سے آخری ملاقات میں خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ان لوگوں کو بتایا کہ میں نے دعا مانگی تھی کے حضرت موسی علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو اور آج وہ مجھے خواب میں ملے اور پوچھا علم دین کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا حضرت اپ کلیم اللہ ہیں خدا سے کہیں کہ عدالت میں اپنے والد کی وجہ سے جو جھوٹ بولا ہے کہ راجپال کا قتل میں نہیں کیا . اللہ تعالیٰ میرا وہ گناہ معاف کردے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے خوشخبری دی کے میرا وہ گناہ معاف کر دیا گیا ہے. اسی وجہ سے میں آج اتنا خوش ہوں.
میانوالی جیل میں 31 اکتوبر 1929 کو عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تختہ دار پر لٹکا کر فانی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف روانہ کر دیا گیا . تختہ دار پر پوچھی گئی آخری خواہش کے جواب میں شہید علم دین نے کہا کو میں چاہتا ہوں کہ پھانسی کا پھندا خود اپنا گلے میں ڈالوں اورمیرے ہاتھ پاؤں نا باندھے جائیں تاکہ شدید اذیت سے دوچار ہو کر اگلے جہاں میں محبوب خدا کا قرب حاصل کر سکوں تاہم دونوں خواہشات کو رد کر دیا گیا.
پھانسی کے وقت وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ میں حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے راج پال کو قتل کیا تم گواہ رہوں کہ میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں کلمہ شہادت پڑھ کر جا ن آفریں کے سپرد کر رہا ہوں. اور پھر کلمہ شہادت پڑھا اور اپنی جان کو ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا.
اعلیٰ حکام نے حالات خراب ہونے کے ڈر سے شہید کی تدفین غسل کے بناہ ہی قیدیوں کے قبرستان میں کردی . حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خاطر جان قربان کرنے والے کی اس طرح تدفین کی خبر جب مسلمانوں کی ہوئی تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا . جلسوں میں مسلمان مقررین نے مسلمانوں کے قلوب کو ایسا گرما یا کہ وہ شہید علم دین کا لاشہ حاصل کرنے کے خاطر مر مٹنے کو تیار ہوگئے . اسی دوران مسلمانوں کے وفد نے جو کہ علامہ اقبال، سر شفیع، میاں عبدالعزیز ، مولانا غلام محی الدین قصوری پر مشتمل تھا نے ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اور گورنر پنجاب سے ملاقات کی . اور کچھ شرائط کے بعد لاش کی حوالگی کا معاملہ طے پاگیا. حکام کی جانب سے پھانسی کے 13 دن بعد علم دین شہید کی لاش کو میانوالی سے لاہور لاکر مسلمان معززین کے حوالے کر دی. چوبرجی کے میدان میں لاکھوں فزراندن اسلام نے شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کی . جنازے کے راستے میں خواتین اسلام گھروں کی چھتوں پر کلام اللہ کی تلاوت کر رہی تھی اور مرد حضرت جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ کلمہ طیبہ کا ورد ، نعرہ تکبیر اور علم دین شہید زندہ آباد کے نعرے بلند کر رہے تھے. جنازہ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھی. تدفین سے قبل ہی قبر کو پھولوں سے بھر کر پھولوں کا بستر بنا دیا گیا اور تدفین کے بعد قبر کو پھولوں سے لاد دیا گیا تھا.
بلاشبہ یہ مقام ایک سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہی مل سکتا تھا، جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوۓ خود کو حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا. وہ علم دین جس کو کچھ عرصہ قبل تک چند لوگ ہی جانتے تھے اس واقعہ کے بعد آج مسلم امہ اسے علم دین شہید اور سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے. اور رہتی دنیا تک غازی علم دین شہید کا نام عاشق رسول اور حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے والوں کی فہرست میں چمکتا دمکتا رہے گا.